Saturday, 29 June 2013

Urdu Poetry Collection 3


شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا

پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا

ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا

میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا

ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا

موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا

جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مارا

شکوۂ موت کیا کریں کہ جگر
آرزوئے حیات نے مارا






کسی سحر کا کسی شام کا نہیں رہتا 
جو تیرا ہوا کسی کا کام کا نہیں رہتا 
ٹھہر گیا ہے میرے دل پہ سانس لینے کو 
وگرنہ ماہ کسی بام کا نہیں رہتا
شب فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں 
یہاں پہ کوئی میرے نام کا. نہیں رہتا 
میں صبح شام اسی کے خیال میں ہوں نوید 
مجھے خیال کسی کام کا نہیں رہتا






یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں، مگر امید نہ ہارو

کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!
Nasir Kazmi (ناصر کاظمی)






کبھی یاد آو تو اس طرح 
کہ دل و نظر میں سما سکو 
کبھی حد سے حبس جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو 
کبھی کھل سکو شب وصل میں 
کبھی خون دل میں سنور سکو
سر رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو ...نہ گزر سکو






لئے تو چلتے ہیں حضرتِ دل تمہیں بھی اُس انجمن میں ،لیکن
ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا

نہیں ہے کچھ قتل ان کا آساں، یہ سخت جاں ہیں برے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا، یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا

ہلاک اندازِ وصل کرنا کہ پردہ رہ جائے کچھ ہمارا
غم ِجُدائی میں خاک کر کے کہیں عدو کی خوشی نہ کرنا

مری تو ہے بات زہر اُن کو، وہ اُن کی مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ اُن سے جو التجا سے کہنا ، غضب ہے اُن کو وہی نہ کرنا

  Dagh Dehelvi داغ دهلوي

Urdu Poetry Collection 2


اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر

آج وہ دیکھ رہے ہیں، جو سُنا کرتے تھے

Nasir Kazmi ناصر کاظمی




 اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں

وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں.''.......!
Parveen Shakir ''پروین شاکر'





میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

میرے همدم تیرا جواب نہیں
اب ، محبت کی بات مت کرنا
اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں.





چنگاریاں نہ ڈال میرے دل کے گھاؤ میں

میں خود ہی جل رہی ہوں دکھوں کے الاؤ میں
ہے کوئی اھل دل جو خریدے میرا مزاج
میں زخم بیچتی ہوں محبّت کے بھاؤ میں





پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر

بچھڑ کے جس سے ہوئ شہر شہر رسوائی





کیا ضروری ہے با خبر ____ ٹھہریں؟

آگہی بھی عذاب ہوتی _____ ہے





 Mohsin Naqvi شاعر محسن نقوی


خواب تھا دیدہ بیدار تلک آیا تھا
دشت بھٹکتا ہوا دیوار تلک آیا تھا



اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن میرے کردار تلک آیا تھا

اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ 
زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا

عشق کچھ سوچ کے خاموش رہا تھا ورنہ 
حسن بکتا ہوا بازار تلک آیا تھا

محسن اس وقت مقدر نے بغاوت کر دی 
جب میں اس شحص کے معیار تلک آیا تھا


Urdu Romantic Poetry Collection 1






وفا میں اب یہ ہُنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے


Mohsin Naqvi محسن نقوی




یہ آنکھوں میں چمکتی ہے

یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے .....تو پھر آخر ہمیں
اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے
(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو!




Cockroach Theory Of Self-Development

Don't React..... Respond!!

At a restaurant, a cockroach suddenly flew from somewhere and sat on a lady. She started screaming out of fear. With a panic stricken face and trembling voice, she started jumping, with both her hands desperately trying to get rid of the cockroach. Her reaction was contagious, as everyone in her group also got panicky.
The lady finally managed to push the cockroach away but ...it landed on another lady in the group.
Now, it was the turn of the other lady in the group to
continue the drama. The waiter rushed forward to their rescue.
In the relay of throwing, the cockroach next fell upon the waiter. The waiter stood firm, composed himself and observed the behavior of the cockroach on his shirt. When he was confident enough, he grabbed it with his fingers and threw it out of the restaurant.
Sipping my coffee and watching the amusement, the antenna of my mind picked up a few thoughts and started wondering, was the cockroach responsible for their histrionic behavior?
If so, then why was the waiter not disturbed?
He handled it near to perfection, without any chaos. It is not the cockroach, but the inability of the ladies to handle the disturbance caused by the cockroach that disturbed the ladies.
I realized that, it is not the shouting of my father or my boss or my wife that disturbs me, but it's my inability to handle the disturbances caused by their shouting that
disturbs me. It's not the traffic jams on the road that disturbs me, but my inability to handle the disturbance caused by the traffic jam that disturbs me.
More than the problem, it's my reaction to the problem that creates chaos in my life.
Lessons learnt from the story:
Do not react in life. Always respond. The women reacted, whereas the waiter responded.
Reactions are always instinctive whereas responses are always well thought of, just and right to save a situation from going out of hands, to avoid cracks in relationship, to avoid taking decisions in anger, anxiety, stress or hurry.

Ideal Spouse - Urdu Story 3


ایک بہن کا ایمان افروز واقعہ :

میرے بھائی نے مجھے اپنے ایک دوست سے سنا ہوا سچا واقعہ سنایا جو اپنی بہنوں کے لیے بطور نصیحت پیش کررہی ہوں۔

میرے ایک عزیز پیرس میں خاصے عرصے سے مقیم ہیں۔ برسر روز گار ہیں، مگر ابھی تک کسی وجہ سے اپنا گھر نہیں بسا سکے۔ ایک دن میرے پاس آئے تو گھر بسانے کا قصہ چھیڑ دیا۔ وہ کسی مناسب رشتے کی تلاش میں تھے۔ عربی کے الفاظ میں کسی ’’بنت الحلال‘‘ کی تلاش کے لیے مجھ سے بھی کہا۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، مختلف لوگ جن کی بچیاں شادی کی عمرکو پہنچ چکی ہیں، کہتے رہتے ہیں، کسی نہ کسی جگہ مناسب رشتہ دیکھ کر بات چلا دیں گے۔

چنانچہ ایک جگہ میں نے بات شروع کی۔ لڑکی کے والد مراکش کے رہنے والے ہیں اورعرصۂ دراز سے یہاں مقیم ہیں، اولاد یہیں پیدا ہوئی، لہٰذا فرنچ زبان عربی پر حاوی ہوچکی ہے۔ والد اور والدہ سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں توکوئی اعتراض نہیں رشتہ مناسب ہے، لڑکی کی عمر بھی 20,21سال ہو چکی ہے۔ وہ خود بھی سمجھدار اور پڑھی لکھی ہے، اس سے مشورہ کرکے بتاتے ہیں۔ بات آگے بڑھتی گئی، ہمیں قوی یقین تھا کہ سمبندھ ضرور ہو جائے گا کیونکہ رشتہ ہم پلہ تھا۔ چنانچہ وہ دن بھی آیا کہ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ لڑکا لڑکی کو دیکھ لے اوردونوں آپس میں گفتگو بھی کرلیں تاکہ بات طے ہوسکے۔

اتفاق کی بات کہ ملاقات کے لیے ریلوے اسٹیشن کا انتخاب ہوا، چنانچہ لڑکا اور لڑکی ذرا دور ہٹ کر بیٹھ گئے۔ لڑکی کی والدہ، والد، میری اہلیہ اور میں ان کو دور سے دیکھ رہے تھے کہ دفعتاً لڑکی نے اپنے پرس سے کچھ اوراق نکالے اور لڑکے کے سامنے رکھ دیے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے لڑکی کی والدہ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی کہ دراصل اس کی بیٹی نے اپنے ہونے والے شوہر سے اس کی نجی زندگی کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ایک سوال نامہ مرتب کیا ہے۔ اس کے جوابات کی روشنی میں وہ اسے اپنا شریک حیات بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔ سوالات عربی اور فرنچ دونوں زبانوں میں تھے، مگر زیادہ فرنچ زبان اختیار کی گئی تھی۔ میرا دوست اس زبان سے زیادہ واقف نہیں تھا۔ اس نے دور سے مجھے اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا تاکہ میں ان سوالات کا جواب لکھنے میں اس کی مدد کر سکوں۔

وہ سوالات تین صفحات پر مشتمل تھے۔ پہلے صفحہ پر اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات تھے، مثلاً نام، ولدیت، ایڈریس، قد، وزن، پیشہ، تعلیم، کاروبار، نوکری، گھر اپنا ہے یا پرایا، آپ کتنے گھنٹے ڈیوٹی دیتے اور کتنی تنخواہ لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ عام سے سوالات تھے جن کاجواب میرے دوست نے لکھ لیا تھا، مگر اصلی سوالات اگلے دو صفحات میں تھے۔

ان میں سوالات کچھ اس قسم کے تھے کہ آپ کا اسلام سے اورمذہب سے کس حد تک تعلق ہے؟ پانچوں نمازیں آپ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اسلام کی راہ میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ قرآن پاک کا کتنا حصہ زبانی یاد ہے؟ مہینے میں کتنی مرتبہ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں؟ حدیث کی کون سی کتاب آپ پڑھ چکے ہیں اورکتنی احادیث آپ کو یاد ہیں؟ حقوق الزوجین کے بارے میں ایک صفحہ لکھیں۔ سیرت کی کون سی کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے؟ آپ نے کسی حلقۂ درس میں کبھی شرکت کی ہے، اگرکی ہے توکون سا عالم دین تھا، اور آپ نے اس سے کون سی کتاب پڑھی ہے؟

عامر عقاد کہہ رہا تھا: میں اس لڑکی کے سوال پڑھتا چلا جارہا تھا اورجہانِ حیرت میں گم ہوتاجارہا تھا کہ اس ماحول میں بھی اسلام سے اس حد تک محبت رکھنے والی بچیاں موجود ہیں۔

ایک سوال یہ بھی تھا: کیا آپ اولاد کے خواہش مند ہیں؟ لڑکیاں چاہتے ہیں یا لڑکے؟ شادی کے بعد جو پہلا بچہ ہو گا اس کا نام کیا رکھیں گے؟ آپ اپنی شریک حیات میں کس قسم کی خوبیاں دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ وہ سوال نامہ کیا تھا؟ حقیقت میں اس کی زندگی اور طرزفکر کے بارے میں مکمل کھوج تھا۔ ان سوالات کے جوابات ملنے اور پڑھنے کے بعد بلاشبہ ایک شخص کی زندگی کا عکس پوری طرح نظر آجاتا ہے۔

تو پھر آپ کے دوست نے ان تمام سوالوں کا صحیح جواب لکھا؟ میں نے پوچھا۔ دوست بولا: ’’کیوں نہیں؟ اس نے سارے جوابات مفصل دینے کی کوشش کی۔‘‘

’’اچھا تو پھر یہ شادی انجام پذیر ہوئی یا نہیں؟‘‘

’’نہیں بھائی! وہ رشتہ طے نہ ہو سکا۔ لڑکی ان جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی اوراس نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے ایسا شوہر نہیں چاہیے جو اپنے رب کے ساتھ مخلص نہیں۔ جو اپنے خالق کا وفادار نہیں وہ کل کلاں میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟‘‘

اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعتا اگر میری بہنیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ہونے والے شوہر کی اپنے رب سے وفاداری اور تعلق کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں تو پھر ان کی آئندہ زندگی یقینا بے حد خوشگوار گزرے گی ۔"

Believe In Yourself - Urdu Story 2


ایک دن ایک معروف کمپنی کا ایک ملازم اپنے دفتر پہنچا تو اسکی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے ایک نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا۔
جو شخص کمپنی میں آپ کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ تھا۔ کل رات اسکا انتقال ہوگیا آپ سے گزارش ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لے آئیں جہاں پر اسکی میت رکھی ہوئی ہے۔

یہ پڑھتے ہی وہ اداس ہوگیا کہ اسکا کوئی ساتھی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوگیا لیکن چند لمحوں بعد اس پر تجسس غالب آ گیا کہ آخروہ شخص کون تھا جو اسکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اس تجسس کو ساتھ لیے وہ جلدی سے کانفرس ہال میں پہنچا تو وہاں اس کے دفتر کے باقی سارے ساتھی بھی اسی نوٹس کو پڑھ کر آئے ہوئے تھے اور سب حیران تھے کہ آخر یہ شخص کون تھا۔

کانفرس ہال کے باہر میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا کہ سکیورٹی گارڈ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ سب لوگ ایک ایک کرکے اندر جائیں اور میت کا چہرہ دیکھ لیں۔

سب ملازمین ایک ایک کرکے اندر جانے لگے جو بھی اندر جاتا اور میت کے چہرے سے کفن ہٹا کر اس کا چہرہ دیکھتا تو ایک لمحے کی لیے حیرت زدہ اور گنگ ہو کر رہ جاتا اور اسکی زبان گویا تالو سے چپک جاتی یوں لگتا کہ گویا کسی نے اسکے دل پر گہری ضرب لگائی ہو۔
اپنی باری آنے پر وہ شخص بھی اندر گیا اور میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو اس کا حال بھی دوسروں جیسا ہی ہوا.

کفن کے اندر ایک بڑا سا آئینہ رکھا ہوا ہے اور اسکے ایک کونے پر لکھا تھا۔

"دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحتیوں کو محدود کرکے آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں۔"

یاد رکھیۓ آپ کی زندگی میں تبدیلی آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے آپ کا باس تبدیل ہونے سے آپ کے دوست احباب تبدیل ہونے سے نہیں آتی۔
آپ کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیتے ہیں ، ناممکن کو ممکن اور مشکلات کو چیلنج سمجھتے ہیں اپنا تجزیہ کریں ۔ اپنے آپ کو آزمائیں ۔ مشکلات ، نقصانات اور نا ممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں اور ایک فاتح کی طرح جیئیں۔

Take Care Of Your Parent - Urdu Story 1


ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔...

باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟

بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔

کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟

بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔

کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟

بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا؛ ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے مُخاطب ہو کر پوچھا؛ بیٹے یہ کیا ہے؟

اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا، نہایت ہی اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے باپ سے کہا؛ کیا بات ہے، آج آپ کو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہو۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو یہ سب کُچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے!

اس مرتبہ باپ یہ سب کُچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟

بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا؛ آج میرے بیٹے کی عمر تین سال ہو گئی ہے۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے؛ یہ کیا ہے۔ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال ۲۳ بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے ۲۳ بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں ۔"

20 Habits That Make You Fat

Stay Fit and Smart

سالہ اصغر کالج میں داخل ہوا تو وہاں اکثر کچھ نہ کچھ کھاتا پیتا رہتا۔ہر وقت چرتے رہنے سے اُسے موٹا تازہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے دوست یہ دیکھ کر اظہار تعجب کرتے کہ اصغر تو بڑا ’’اسمارٹ‘‘ یعنی دبلا پتلا اور اچھی صحت کا مالک ہے۔ آخر اس کی صحت کا راز کیا تھا؟
دراصل اصغر مضر صحت چیزیںنہیںبلکہ پھل، سبزی اورمیوہ جات کھاتاتھاجوانسان کوفربہ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں یہ غلط نظریہ جڑ پکڑ چکا کہ انسان زیادہ کھانے سے موٹا ہوتا ہے۔ حالانکہ موٹاپا اس وقت جنم لیتا ہے جب انسان زیادہ حرارے (کیلوریز) کھائے۔ چنانچہ کم حراروں والی غذا ئیں زیادہ لی جائیں، تب بھی وہ ہمیں موٹا نہیں کرتیں۔ لیکن زیادہ حراروں والی غذا ہمیں قدرتاً فربہ بنا ڈالتی ہے۔
ذیل میں ایسی 20 عادات کا ذکر ہے جنھیں اختیار کرنے سے ہم موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے دور رہیے اور خود کو سدا اسمارٹ رکھیے۔
پہلی عادت: زیادہ یا کم سونا
یاد رکھیے، موٹاپا بیماریوں کی ماں کہلاتا ہے۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی کے محققوں نے تجربات سے دریافت کیا ہے کہ جو مرد و زن پانچ گھنٹے سے کم سوئیں، ان کے شکم پہ ’’ڈھائی گنا‘‘ زیادہ چربی چڑھ جاتی ہے۔ جب کہ جو آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیند لیں، ان کے بدن پر بھی تقریباً اتنی ہی چربی چڑھتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ کو اپنا وزن کنٹرول کرنا ہے تو رات کو چھ سات گھنٹے ضرور سوئیے۔
دوسری عادت: بوتلیں پینا
لاکھوں پاکستانی ہر ہفتے کھاتے پیتے تقریباً ایک گیلن سوڈا واٹر چڑھا جاتے ہیںجو انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے، جو مرد یا عورت روزانہ ایک دو بوتلیں پیئے، اس کا موٹا ہونے کا امکان 33 فیصد بڑھ جاتا ہے اور اس ضمن میں ڈائٹ سوڈا بھی برابر کا مجرم ہے۔
برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پچھلے دس برس سے ایسے 100 بوڑھوں پر تجربہ جاری تھا جو روزانہ ایک یا دو سوڈا بوتلیں پیتے تھے۔ یہ تجربہ کچھ ہی عرصہ پہلے اختتام کو پہنچا۔ اس کا ماحصل یہ نکلا کہ باقاعدگی سے بوتلیں پینے والوں کا وزن ’’پانچ گنا‘‘ زیادہ بڑھ گیا۔ محققین کا خیال ہے کہ بوتلوں میں شامل مصنوعی شکر اور دیگر کیمیائی مادے بھوک کو بڑھاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے زیراثرزیادہ کھانا کھایا جاتا ہے۔
تیسری عادت: کم چکنائی والی غذائیں کھانا
بازار میں کم چکنائی (Low-Fat) والی کئی غذائی اشیا دستیاب ہیں مثلاً دودھ وغیرہ۔ لیکن اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں کچھ ہی کم حرارے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اس عمل کے دوران چکنائی کی جگہ نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) لے لیتا ہے۔ نشاستہ ہمارے جسم میں پہنچتے ہی تیزی سے ہضم ہوتا اور یوں شکر کی سطح بڑھا دیتا ہے ۔اور جب شکر کی سطح کم ہو تو فوراً ہمیں بھوک لگ جاتی ہے۔ یہی چکر پھر انسان کو موٹا بنا ڈالتا ہے۔
چوتھی عادت: کھانا چھوڑ دینا
پاکستانیوں کی بڑی تعداد صبح، دوپہر یا رات کو ایک وقت کاکھانا نہیں کھاتی۔ بہت سے مرد و زن دبلا ہونے کی خاطر یہ عمل اپناتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً ناشتہ چھوڑنے والے یوں خود کو موٹاپے کاشکار بنا لیتے ہیں۔
مثلاً امریکی کارنیوال یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تجربے سے معلوم کیا کہ جو لوگ ناشتہ نہ کریں، وہ جلد فربہ ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کھانا ترک کرنے سے ہمارا نظام استحالہ (Metabolism) سست ہو کر بھوک بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ انسان اگلے کھانے میں معمول سے زیادہ غذا کھاتا ہے۔ یہ اُعجوبہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔
پانچویں عادت: ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل نہ کرنا
تجربات سے انکشاف ہوا ہے کہ جو فربہ مردوزن ماہرین غذائیات کی ہدایات پر عمل نہ کریں تو وہ دبلے نہیں ہوتے، بلکہ ان پر مزید موٹاپا چڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف ہدایات پر عمل کرنے والے نہ صرف اسمارٹ ہونے لگتے ہیں،بلکہ روزمرہ سرگرمیوں میں ان کی چلت پھرت بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بھی اپنے ماہر غذا کی ہدایات پر لبیک کہیے اور مثبت نتائج پائیے۔
چھٹی عادت: جلدی جلدی کھانا
شاید آپ کو علم نہ ہو، ہمارا جسم ایک بڑی خامی رکھتا ہے… یہ کہ ہمارا معدہ دماغ تک یہ پیغام پہنچانے میں پورے 20 منٹ لگاتا ہے کہ وہ بھر چکا۔ یہی وجہ ہے کہ جلدی جلدی کھانے والے مرد و زن عموماً معمول سے زیادہ کھانا ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جب کہ آہستہ آہستہ کھانے والے نسبتاً کم کھاتے اور موٹاپے سے بچ جاتے ہیں۔
ایک فرانسیسی یونیورسٹی میں تجربے سے انکشاف ہواکہ سُستی سے کھانا کھانے والے فی طعام 66 حرارے کم کھاتے ہیں۔ اس تعداد کو معمولی نہ سمجھیے… یوں ہر سال ہم اپنے جسم میں 20 پونڈ چربی چڑھانے سے بچ جاتے ہیں۔
ساتویں عادت: ہوٹلوں میں مفت غذائیں کھانا
کئی ہوٹل اور ریستوران اپنے گاہکوں کو کسی مخصوص دن کوئی مخصوص غذ ا مثلاً چپس، بسکٹ، سالسا وغیرہ مفت فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے مرد و زن مفت کا مال سمجھ کر وہ غذا خوب اڑاتے ہیں۔
لیکن یہ قدم اٹھانے کی انھیں قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔وہ یہ کہ زائد غذا کھا کر وہ اپنے کھانے میںکم ازکم 300 حراروں کا اضافہ کر بیٹھتے ہیں۔ بظاہر یہ مقدارمعمولی لگتی ہے، لیکن جب مفت غذا کھانا معمول بن جائے تو زائد حرارے ہی انسان کو فربہ کر ڈالتے ہیں اور اسے پتا بھی نہیں چلتا۔
آٹھویں عادت: حد سے زیادہ ٹی وی دیکھنا
امریکی ورمائونٹ یونیورسٹی میں ایک حالیہ تجربے سے انکشاف ہوا کہ جن موٹے مرد و زن نے روزانہ ٹی وی دیکھنے کا دورانیہ نصف کیا، انھوں نے 119 حرارے مزید جلائے۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اس دوران دوسرے کام کاج میں مصروف یعنی عموماً متحرک رہے۔ گویا وہ ایک سال تک اپنا یہی معمول رکھیں تویہ ان کا 12 پونڈ وزن کم کر ڈالے گا۔
اکثر لوگ عموماً کھانا کھاتے ہوئے ٹی وی دیکھتے ہیں۔ تب وہ ٹی وی میں اتنے منہمک ہو جاتے ہیں کہ انھیں پتا ہی نہیں چلتا وہ ضرورت سے زیادہ کھانا کھا چکے۔ چنانچہ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا انھیں فربہ کر ڈالتا ہے۔ مزید برآں بہت سے لوگوں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کچھ کھانے کی خواہش بھی جنم لیتی ہے۔
نویں عادت: زائد کھانے کا آرڈر دینا
کئی ہوٹل خصوصاً فاسٹ فوڈ ریستوران زیادہ کھانا (کومبو میل) سستا فروخت کرتے ہیں۔ لہٰذا سستے کھانے کی چاہ میں بہت سے مرد و زن اسی کومبو میل کا آرڈر کرتے ہیں۔ لیکن وہ بے خبری میں اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے جسم میں سو ڈیڑھ سو حرارے مزید چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا پیسے بچانے کے چکر میں زائد کھانا نہ خریدئیے ورنہ موٹاپے کا نشانہ بننے کے لیے تیار رہیے۔
دسویں عادت: سفید ڈبل روٹی کھانا
فرانسیسی اوسبورن یونیورسٹی نے ایک تجربے میں درجن پھر فربہ مرد و زن کو بارہ ہفتوں تک خالص اناج کھلایا۔ تجربہ ختم ہوا تو پتا چلا کہ ان کے شکم پہ چڑھی بہت سی چربی اتر گئی۔ گویا میدہ اور چھنے ہوئے اناج سے بنی اشیا انسان کو فربہ کرتی ہیں۔ جب کہ خالص اناج اسمارٹ بناتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خالص اناج میں ریشہ (فائبر) کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ نیز ان میں دیگر غذائی اجزا بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہی خوبی انھیں سپر فوڈ بنا ڈالتی ہے۔
گیارہویں عادت: میز پر پلیٹیں رکھنا
ہمارے ہاں پہلے یہ رواج تھا کہ کھانے کاڈونگا باورچی خانے میں رکھا ہوتا تھا اور امی یا دادی ہر کسی کو پلیٹ میں نکال کر سالن دیتیں۔ آج کل یہ رواج ہے کہ میز پر سالن کے ڈونگے رکھے جاتے ہیں۔ اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ باورچی خانے میں ڈونگے رکھنے کی روایت ہی طبی طور پر درست تھی۔
وجہ یہ ہے کہ جب میز پر سالن رکھا ہو تو انسان بے اختیار زیادہ کھانا کھا بیٹھتا ہے۔ بعض مرد و زن تو 35 فیصدتک زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں۔ لیکن جب کسی کو علم ہوکہ سالن لینے کے لئے باورچی خانے تک جانا پڑے گا تو وہ معمول کے مطابق کھاتے ہیں۔ لہٰذا تندرستی کی طلب ہے تو بزرگوں کی روایت کی طرف پلٹ جائیے۔
بارہویں عادت: پانی کم پینا
پانی ہمارے بدن کا اہم جزو ہے۔ بلکہ تمام جسمانی افعال اسی مائع کی مدد سے انجام پاتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم روزانہ مطلوبہ مقدار میں پانی نوش کریں اور زیادہ پانی پینے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دبلا کرتا ہے۔
امریکی اُوٹاہ یونیورسٹی میں ایک تجربے کے دوران فربہ مرد و زن کو کہا گیا کہ وہ ایک ماہ تک روزانہ ہر کھانے سے قبل دو گلاس پانی پیئیں۔ تجربے کے اختتام پہ معلوم ہواکہ پانی نہ پینے والوں کی نسبت ان کا وزن 30 فیصد کم ہو گیا۔
مزید برآں جرمن ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ پانی سرد ہو تو اثر دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ وہ فربہ لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ چھ گلاس ٹھنڈا پانی نوش کریں۔ یہ پانی نظام استحالہ متحرک کر کے پچاس ساٹھ حرارے جلا ڈالتا ہے۔ گویا یہ مفت کا موٹاپا مکائو نسخہ ہے۔
تیرہویں عادت: بوفے سے پرہیز کیجیے
آج کل ہوٹلوں، ریستورانوں، شادی ہالوں حتیٰ کہ نجی دعوتوں میں بوفے عام ہوچکا۔ کھانے کا یہ طریق کار بھی انسان کو فربہ بناتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ مرغ مسلم ہر کسی کی دسترس میں ہوتا ہے۔ لہٰذا چٹورے کھل کر ہاتھ صاف کرتے ہیںاور یہی آزاد روی انھیں فربہ بناکر بیماریوں کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ لہٰذا کسی بوفے میں جائیے تو ہاتھ ہولا رکھیے اور پیٹ کی گنجائش کے مطابق ہی کھائیے۔
کئی لوگ چند لقموں میں پوری روٹی کھا جاتے ہیں۔ یہ بھی موٹاپے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جاپانی ماہرین طب نے ایک تجربے کے ذریعے دریافت کیا ہے کہ جو مرد و زن بڑے لقموں میں کھانا کھائیں وہ اکثر 52 فیصد زیادہ غذا کھاتے ہیں۔ جب کہ چھوٹے لقمے لینے اور آہستہ کھانے والے کم کھانا کھاتے ہیں۔
چودھویں عادت: دوران طعام بڑے لقمے لینا
چھوٹے لقموں کا فائدہ یہ ہے کہ غذا ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے۔ جب کہ آہستہ کھانے سے انسان غذا سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے نیز سیر بھی جلد ہوجاتا ہے۔ یہ سنہرا اصول یاد رکھیے… لقمے جتنے چھوٹے ہوں گے، آپ کی کمر بھی اتنی ہی پتلی ہو گی۔
پندرہویں عادت: بڑی پلیٹوں میں کھانا نہ کھائیے
برطانیہ میں ایک تحقیق سے یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ ایک دعوت میں 99 فیصد موٹے مرد و زن بڑی پلیٹوں کی طرف لپکتے ہیں۔ معنی یہ کہ زیادہ کھانا، زیادہ حرارے اور زیادہ موٹاپا! لہٰذا آپ دبلے ہونے کے خواہش مند ہیں تو دعوت میں چھوٹی پلیٹ کا انتخاب کیجیے۔ سیری نہ ہو تو آپ مزید سالن ڈال سکتے ہیں۔
سولہویں عادت: فربہ دوست نہ بنائیے
ایک کہاوت ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ فربہی کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جرمن محققوں نے بذریعہ تحقیق جانا ہے کہ جب آپ کا دوست فربہ ہو جائے تو یہ 57 فیصد امکان ہوتا ہے کہ آپ بھی موٹے ہو جائیں۔ وجہ یہ ہے کہ فربہ دوستوں کی معیت میں اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وزن بڑھا لیتا ہے۔
سترہویں عادت: دیر سے طعام کرنا
جب ہم سو رہے ہوں تب بھی ہمارا جسم چربی جلانے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پیٹ نہ بھرا ہو۔ ورنہ پھر بدن اسے ہضم کرنے میں مصروف رہتا ہے۔
امریکی ماہرین طب نے 50 مرد و زن کی عادات کا دو ہفتے تک جائزہ لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ کس وقت سوتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ نوبجے کے بعد کھانا کھائیں وہ زیادہ کھاتے اور یوں فربہ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا رات نو بجے سے پہلے طعام کرنا معمول بنا لیجیے۔
اٹھارہویں عادت: بازاری شربتوں سے دور رہیے
آج کل بیشتر ہوٹلوں میں پھلوں کے رس کے نام پر ایسے مشروب ملتے ہیں جو کارن سیرپ اور گاڑھا کرنے والی اضافیوں (Thickening Agents) سے بنتے ہیں۔ یہ سراسر فربہی کے ہرکارے ہیں۔ چنانچہ انھیں نوش جاں نہ کریں تو بہتر ہے۔
انیسویں عادت: وزن ناپنے کا پیمانہ استعمال کیجیے
کئی فربہ لوگ وزن ناپنے کا پیمانہ لے تو آتے ہیں مگر اسے استعمال نہیں کرتے۔ اب لندن یونیورسٹی کے ماہرین نے تجربے سے جانا ہے کہ جو روزانہ پیمانے پر اپنا وزن کریں، انھیں پھر فربہی کم کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ لہٰذا فربہ مرد و زن باقاعدگی سے اپنا وزن چیک کریں، یوں اسمارٹ ہونے میں مدد ملے گی۔
بیسویں عادت: ہیجان میں کھانانہ کھائیے
بہت سے مرد و زن زیادہ کھانا کھا کر غم، غصے یا ذہنی دبائو سے چھٹکارا پانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ طریق کار بھی فربہی کو دعوت دیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں انسان بغیر سوچے سمجھے زیادہ غذاکھا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غم و غصے کی حالت میں اگر کھانے کی تمنا جنم لے تو چیونگم کھا لیجیے، پانی کا گلاس پی لیجیے یا چہل قدمی کیجیے۔ غرض ہیجانی کیفیت میں کھانا کھاکر غم و غصہ دور کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ آپ خود کو حراروں سے بھر لیں گے۔

How To Stay Away From Disease - Easy Tips In Urdu

ہمیں محسوس نہیں ہوتا، لیکن عام زندگی میں بعض کام ہمارے جسم اور صحت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی سات سرگرمیاں پیش ہیں جنہیں انجام دینے یا نہ دینے سے ہم کئی خوفناک بیماریوں مثلاً ذیابیطس، امراض قلب، موٹاپے وغیرہ سے بچ سکتے ہیں۔
1۔ جب ہم ناشتہ نہ کریں…تو کیا ہوتا ہے؟
انسان جب طویل آرام کے بعد صبح بیدار ہو، تو اُسے کھانا کھائے دس بارہ گھنٹے بیت چکے ہوتے ہیں۔ گویا تب بدن کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص بات یہ کہ اس وقت خون میں گلوکوز کی مقدار بھی کم ہوچکی ہوتی ہے۔
چناں چہ انسان ناشتہ کیے بغیر کام پہ لگ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی سے محروم ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے دماغ کو موثر طور پر کام کرنے کے لیے شکر خون (بلڈشوگر) کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ناشتہ نہ کرنے والے مرد و زن دوران کار سر درد، اعصابی تنائو، متلی، شکم درد محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات ذہنی قوت بھی کم ہو جاتی ہے۔ ماہرین تحقیق سے دریافت کر چکے کہ اسکول جانے والے جو بچے ناشتہ کریں ان کی یادداشت تیز ہوتی ہے۔
نیز وہ ناشتہ نہ کرنے والے بچوں سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔
ممتاز امریکی معالج، ڈاکٹر سوما ڈریلی کہتی ہے ’’ناشتہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ سارا دن انسان کی بھوک کنٹرول میں رکھتا ہے‘‘۔ ایک اور بات یہ ہے کہ جو مرد و زن ناشتہ نہ کریں، وہ پھر دوپہر یا رات کو زائد کھانا کھا کر حراروں کی کمی پوری کرتے ہیں۔ نیز اس دوران عموماً وہ سیچوریٹڈ چکنائی والی اشیا کھاتے ہیں… وہ چکنائی جو ہمارے قلب کی شریانوں میں جم جاتی ہے۔
ناشتہ نہ کرنے والے اس عادتِ بد میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ کھانوں کے درمیان الم غلم (Junk) غذائیں کھاتے پھریں۔ امریکا میں بذریعہ تحقیق معالجوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ جو فربہ خواتین زیادہ کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین سے بھرپور بھاری ناشتہ کریں، ڈائٹنگ کے دوران ان کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ ناشتہ نہ کرنے والی موٹی خواتین اس کامیابی سے محروم رہتی ہیں۔ لہٰذا مناسب ناشتہ کر کے وزن کم کیجیے، یوں آپ کے خون میں شکر کی سطح بھی معمول پر رہے گی۔
نکتے کی بات
75 فیصد سے زیادہ جو مرد و زن ناشتہ کریں، وہ اپنا وزن کم کر لیتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا اگر صبح آپ ناشتے سے لطف اندوز ہوں، تو آپ انسولین مزاحمت (Resistance) سے بھی بچ سکیں گے۔ اسی خلل کے باعث انسان ذیابیطس قسم دو کا نشانہ بنتا ہے۔
2۔ جب ہم چاکلیٹ کھائیں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
بازار میں دستیاب تمام میٹھی اشیا میں چینی موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے جب ہم ٹافی، گولی، آئس کریم، کیک وغیرہ کھائیں، جن میں کہ چینی بہت ہوتی ہے، تو ہمارے خون میں شکر کی سطح (کبھی کبھی خطرناک حد تک) بڑھ جاتی ہے۔ تاہم چاکلیٹ کے ذریعے یہ اثر جنم نہیں لیتا۔
وجہ یہ ہے کہ چاکلیٹ میں چکنائی (Fat) بھی خاصی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ چاکلیٹ کے ہضم ہونے کا عمل سست کر ڈالتی ہے۔ چناں چہ چاکلیٹ کھانے سے ہمارے خون میں شکر بڑھتی تو ہے، لیکن اتنی زیادہ مقدار میں نہیں جو سادہ کاربوہائیڈریٹ مثلاً ٹافی، گولی، سفید ڈبل روٹی، پاستا یا آلو کھانے سے جنم لیتی ہے۔
چاکلیٹ دیگر منفی عوامل بھی رکھتا ہے۔ مثلاً دودھ والے (مِلک چاکلیٹ) میں قلبی شریانیں بند کرنے والی اچھی خاصی سیچوریٹڈ چکنائی موجود ہوتی ہے۔ اور یہی مِلک چاکلیٹ بازار میں دستیاب ہے۔
یہ بھی درست کہ چاکلیٹ سٹیرک (Searic) تیزاب نامی چکنائی بھی رکھتا ہے جو ہمارے کولیسٹرول میں اضافہ نہیں کرتا۔ لیکن بہت زیادہ چکنائی کھانے کا مطلب ہے بہت زیادہ حرارے کھانا۔ لہٰذا اگر آپ نے باقاعدگی سے مِلک چاکلیٹ کھایا تو فربہ رہنے کے لیے تیار رہیے۔ البتہ گہری رنگت والا (Dark) چاکلیٹ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ وہ بلند فشار خون (بلڈ پریشر) اور کرنے والے ضد تکسیدی مادے رکھتا ہے۔
نکتے کی بات
چاکلیٹ یقینا بچوں بڑوں کی من پسند غذائی شے ہے، لیکن اسے کھانا عادت نہ بنائیے۔ بس ہفتے میں ایک دو بار کھائیے۔ دوسری صورت میں وزن بڑھنا آپ کا مقدر بن جائے گا۔
3۔ جب ہم سیب کھا لیں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
رس بھرے سیب کی ہر قاش اہم غذائیت (Nutrient) اور دیگر غذائی مرکبات رکھتی ہے۔ یہ رسیلاپھل ہمارے نظام استحالہ (Metabolism) کو تقویت پہنچاتا، بھوک دباتا اور قلب کی نشوونما کرتا ہے۔
سیب کے غذائی اجزا میں ریشہ (فائبر) سب سے اہم ہے، خصوصاً حل پذیر ریشہ۔ یاد رہے، ہر قسم کا خلوی مادہ ہماری صحت کے لیے مفید ہے، لیکن حل پذیر ریشہ ایک منفرد خاصیت رکھتا ہے، یہ کہ وہ خون میں شکر کی سطح کنٹرول کرتا ہے۔
جیسے ہی حل پذیر ریشہ ہماری آنتوں میں پہنچے، وہ ہر قسم کے تیزاب و جراثیم متحرک کر دیتا ہے۔ اسی سرگرمی کے باعث نظام انہضام سست پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیب میں موجود شکر ہمارے بدن میں آہستہ آہستہ جذب ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ بے شک دو سیب کھا جائیں، ہمارے خون میں شکر کی سطح معمول پر رہتی ہے۔
سیب ایک ضد تکسیدی (Antioxidant) مادہ، کوئرسٹین (Quercetin) بھی رکھتا ہے۔ یہ بڑا صحت بخش مادہ ہے (جو سبز چائے اور پیاز میں بھی ملتا ہے۔) یہ ہمیں دمے، امراض قلب اور شاید بعض اقسام کے سرطان سے محفوظ رکھتا ہے۔
نکتے کی بات
تحقیق و تجربات کے ماہرین کو علم ہوا ہے کہ سیب کھانے والے ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ نیز یہ پھل انسان کو فربہ ہونے سے بھی بچاتا ہے۔
۴۔اگر میں بیٹھے ہوئے دن گزار دوں۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
کئی لوگ دن کا بیشتر حصہ بیٹھے ہوئے گزارتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں جب گلوکوز بھی ہمارے خون میں آرام کرنے لگے، تو ہمارا جسم کئی خرابیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔
جب ہم چلیں پھریں یا کوئی کام کریں، تو ہمارے عضلات گلوکوز جذب کر کے توانائی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جس دن ہم زیادہ بیٹھے رہیں اور حرکت نہ کریں، تو گلوکوز زیر استعمال نہیں آتی۔ اور جب انسان بیٹھے رہنے کو معمول بنا لے تو دو اہم جسمانی مسئلے جنم لیتے ہیں۔
اول یہ کہ ہمارا جسم بعض غیر استعمال شدہ گلوکوز کو چربی (یا چکنائی) میں بدل دیتا ہے۔ دوم گلوکوز خون میں طویل عرصہ آرام دہ حالت میں رہے، تو ہمارے بدن میں خاص قسم کے مرکب مادے ’’اے جی ایز‘‘ (AGEs) کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ مادہ ہمارے اعصاب اور خون کے خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے خون میں شکر کی سطح مسلسل بلند رہے، تو گردوں کی بیماری جنم لیتی ہے۔ نسیں خراب ہوتی اور اندھا پن چمٹ جاتا ہے۔ ذیابیطس تو اس کی خاص مصنوعہ گنی جاتی ہے۔
چناں چہ طویل عرصہ بیٹھ کر نہ گزاریے، حرکت میں رہیے اور کام کیجیے۔ ورنہ آپ درج بالا جسمانی خرابیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے، ورزش چربی گھلانے والی سکّہ بند سرگرمی ہے۔ اور تحقیق بتاتی ہے کہ جسمانی سرگرمی سے اے جی ایز کی سطح بھی معمول پر آتی ہے۔ لہٰذامعمولات زندگی میں ورزش کو ضرور داخل رکھیے۔
نکتے کی بات
دن کا بیشتر عرصہ بیٹھے رہنے سے خون میں شکر بھی بے حرکت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ حالت پھر کئی جسمانی خرابیاں پیدا کرتی ہے۔
5۔ جب میں غصے میں سارا دن بسر کروں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
انسان گاہے بہ گاہے غصے میں آئے تو اس میں کوئی ہرج نہیں… یہ ایک قدرتی جذبہ ہے جو کبھی نہ کبھی ہر کسی کو آ دبوچتا ہے۔ لیکن مسلسل غصے میں رہنا دوسری بات ہے… یوں انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔
غصہ دو دھاری تلوار ہے۔ کیونکہ جذباتی طور پر یہ انسان کا موڈ تباہ کرتا اور دوسروں کو اس سے دور کرتا ہے۔ جبکہ جسمانی لحاظ سے غصہ ور انسان موٹاپے اور ذیابیطس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
غصہ دراصل ایک قسم کا ’’جذباتی دبائو‘‘ (Emotional Stress) ہے۔ اس کے جنم لینے سے ہمارے بدن میں ایڈرنیلین اور دبائو سے وابستہ دیگر ہارمون پیدا ہوتے ہیں۔ ان دبائو والے ہارمونوں کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ ہمارے خون میں شکر کی سطح بڑھاتے ہیں۔ نیز جذباتی دبائو ہم میں بری عادات مثلاً الم غلم چیزیں کھانا بھی جنم دیتا ہے۔
انسان دن بھر جلتا کڑھتا اور پیچ و تاب کھاتا رہے، تو یہ کیفیت اس کے دل پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ امریکی ٹیل یونیورسٹی کی تازہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ غصہ پالنے کے شوقین ہیں، ان میں ایک کیمیائی مادہ، اینڈوتھیلین (Endothelin) بکثرت ملتا ہے۔
اینڈوتھیلین کی زیادتی ہی سے دل کی شریانوں میں چربی، کولیسٹرول اور دیگر غذائی مواد جمع ہو کر تھکے بناتا ہے۔ چناں چہ اس کیمیائی مادے کے باعث حملہ قلب ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔
جدید تحقیق نے ایک اور خطرناک انکشاف بھی کیا ہے۔ یہ کہ کوئی انسان مسلسل شدید غصے میں رہے، تو اس میں دھڑکن قلب کی بے قاعدگی (Arrhythmia) کا خلل جنم لیتا ہے۔ یہ خلل بے قابو ہو جائے تو پھر آپ کا دل دھک دھک کرنا چھوڑ سکتا ہے… ہمیشہ کے لیے!
نکتے کی بات
یاد رکھیے، دن بھر غصے میں رہنا زہر ہے۔ لہٰذا اگر آپ اپنا خون ابلتا پائیں، تو جلد اُسے سرد کرنے کی راہ ڈھونڈیے۔ مثلاً اپنا غم و غصہ ڈائری میں لکھ ڈالیے۔ کسی دوست یا ہم راز کو قصّہِ درد سنائیے۔یا پھر باہر جائیے اور بلند آواز میں چیخیے۔۔۔ غرض ایسا ہر قدم اٹھائیے جو آپ کا غصہ دور کر سکے۔
6۔ میں سارا دن خوش رہوں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
جب انسان خوش ہو، اطمینان و سکون محسوس کرے تو اس میں قوت ارتکاز بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر اپنے آپ پہ زیادہ توجہ دیتا ہے۔ چونکہ انسان اپنی دنیا میں امن و امان سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کے بدن میں ذہنی دبائو سے وابستہ ہارمون جنم نہیں لیتے۔ یوں ان کی عدم موجودگی میں خون کی شکر قابو میں رہتی ہے، بلند فشار خون پیدا نہیں ہوتا اور دل کی دھڑکن معمول پر رہتی ہے۔
جدید تحقیق بتاتی ہے کہ خوش باش رہنے والے مرد و زن چھوت کی بیماریوں اور دیگر امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی کارنیج میلن یونیورسٹی میں محققوں نے دس مرد اور خواتین کو دانستہ مختلف جراثیم اور وائرس کا شکار بنایا۔ بعد ازاں اُن مرد و زن کے جسمانی معائینے سے انکشاف ہوا کہ جو خوش باش اور اچھے موڈ میں تھے، ان کے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے والے خاص پروٹین ’’سائٹوکائنز‘‘ زیادہ مقدار میں پیدا ہوئے۔ یہ پروٹین ہمارا نظام مامون پیدا کرتا ہے۔
دیگر تجربات سے بھی واضح ہوا کہ جذبات ہمارے رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً ان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ مثبت طرز فکر رکھیں اور امید پرست رہیں، وہ صحت بخش کھانے کھاتے اور ورزش کرتے ہیں۔ ان کے خون میں شکر کی سطح بھی کم ہوتی ہے۔ غرض وہ ناامیدی اور منفی طرز فکر کا شکار لوگوں کی نسبت بہتر زندگی گزارتے ہیں۔
7۔ اگر میں رات کو پانچ گھنٹے نیند لوں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے۔
انسان جب بھی معمول سے کم نیند لے تو اس کا جسمانی نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ نیند کی کمی سے ہمارے بدن میں بھوک کنٹرول کرنے والا ہارمون، لیپٹن کم جنم لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مرد و زن کم سوئیں، وہ عموماً زیادہ کھانا کھانے لگتے اور فربہ ہو جاتے ہیں۔
نیند کی عدم موجودگی سے بدن میں دبائو Stress پیدا کرنے والے ہارمونوں کی افزائش بھی بڑھتی ہے۔ اسی باعث ہمارا بدن خون میں زاہد گلوکوز پھینکنے لگتا ہے (تاکہ دبائو کم ہو سکے)۔ لہٰذا بہت کم نیند سے جسم میں انسولین کا نظام بھی گڑبڑا جاتا ہے۔
دل تھام کے رکھیے، ابھی تو آغاز ہے۔ محققوں نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کم سونا معمول بنا لے، تو ہمارا مدافعتی (Immune) نظام ایسے مخصوص کیمیائی مادے بنانا چھوڑ دیتا ہے جو جراثیم مارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے سال ایک تحقیق سے دریافت ہوا، جو خواتین و حضرات سات گھنٹے سے کم نیند لیں، وہ دوسروں کی نسبت عام بیماریوں مثلاً بخار، کھانسی، نزلہ وغیرہ میں زیادہ گرفتار ہوتے ہیں۔
نیند کی کمی کے دیگر نقصانات بھی ہیں۔ مثلاً جب الارم انسان کو جگائے، تو بے دلی سے دن کا آغاز کرتا ہے۔ پھر جوں جوں وقت گزرے، انسان پہ سستی اور غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ وہ پھر کوئی کام دھیان سے نہیں کرتا۔ دوسری طرف جو مرد و زن پوری نیند لیں، رات کو بھرپور آرام کریں وہ نئی معلومات تیزی سے اخذ کرتے اور بہترین طور پر کام انجام دیتے ہیں۔
نکتے کی بات
یہ درست ہے کہ کچھ لوگ تھوڑی سی نیند لے کر بھی چوق چوبند ہو جاتے ہیں، مگر بیشتر لوگوں کو سات آٹھ گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

Banana Health Benefits - In Urdu

Kailay k baray mai malomaat - Info about Banana


کیلے کا شمار لذیذ ترین پھلوںمیں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں شاید آم کے بعد سب سے لذیذ، قوت بخش اور زیادہ کھایا جانے وال
ا پھل یہی ہے۔ یہ ایک خوش ذائقہ، خوشبودار، صحت بخش اور شوق سے کھایا جانے والا پھل ہے۔ کہتے ہیں کہ کیلا قدیم ترین پھل ہے جوزمانہ قبل ازمسیح سے زیرِاستعمال ہے۔
سکندرِاعظم نے اسے دریائے سندھ کی وادی میں کاشت ہوتے دیکھا تھا، مگر اب یہ کئی ملکوں کے میدانی علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اب اندرونِ سندھ اس کی وسیع پیمانے کاشت کی جاتی ہے۔ کیلے کو عربی زبان میں موز، بنگالی میں کلہ، سندھی میں کیلو، انگریزی میں Banana کہتے ہیں۔ اطبا کی رائے کے مطابق کیلا گرمی سردی کے موسم میں معتدل اور دوسرے درجے میں تر ہے۔ بعض کے نزدیک گرم تر ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس کی کئی اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ کیلے کی ہر قسم کا اپنا الگ ذائقہ، حلاوت، غذائی خصوصیت اور قوت بخش معیار ہوتا ہے۔ ان میں سے چند مشہور اقسام کے نام حسبِ ذیل ہیں: انو پان، سہلٹ، ڈھاکا جنگلی، مال ٹھوک، سون کیلا، بیجا، کوکنی، رائے کیلا، رام کیلا، چینیہ، ہگیرا، نہنگا، چھپا، صغری، بھینسا، بمبئی کیلا، ہری چھال کا کیلا اور چتی دار کیلا وغیرہ۔ سائنسی تجزیے کے مطابق آدھا کلو کیلے میں ۴۵۰ حرارے ہوتے ہیں۔ کیلے میں ٹھوس غذا زیادہ اور پانی کم ہوتا ہے۔
صحت بخش شکر کی کثرت اسے زودہضم بنا دیتی ہے۔ جو لوگ تکان محسوس کریں، ان کے لیے کیلا بہت مفید چیز ہے۔ کیلا آیوڈین کی کمی دور کرتا ہے۔ اس لیے آیوڈین کی کمی سے لاحق ہونے والی تمام امراض میں بھی یہ مفید ہے۔ پکے کیلے میں نشاستہ زیادہ ہوتا ہے، اس میں فروٹ شوگر بھی خاصی ہوتی ہے۔
کیلے میں غذائی اجزاء ۸۰ فیصد ہوتے ہیں۔ اس میں تقریباً ۴/۳ حصے پانی، ۵/۱ حصہ شکر اور باقی نشاستہ، حل پذیر ریشہ، معدنیات اور حیاتین ہوتے ہیں۔ نشاستہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کیلا کھانے سے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں گوشت بنانے والا جز نائٹروجن زیادہ ہوتا ہے۔
کیلے میں کیلشیئم (چونا)، میگنیشیم، فاسفورس، گندھک، لوہا اور تانبا ملتاہے

Info about Honey - In Urdu


Honey Health Benefits In Urdu

شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے

( مُخْتَلِفُ اَلْوَانُہ فِیْہِ ِشفَآءُ لِلنَّاسِ ْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰ یَةً لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)

'' مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔''(7)
قرآن نے شہد کو ''شفاء للناس '' کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سوء مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:

'' ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا ''میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا ''اس کو شہد پلاؤ'' وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جاؤ اسے پھر شہد پلاؤ''وہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا '' میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا '' اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا ''اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔ (8)

اس حدیث پر ڈاکٹر خالد غزنوی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
'' یہ حدیث علم العلاج اور ماہیت مرض کے بارے میں ایک روشن راہ ہے ،کیونکہ اسہال کا سبب آنتوں میں سوزش ہے ،جو کہ جراثیمی زہریعنی Toxin یا وائرس سے ہوسکتی ہے۔ اگر ایسے مریض کی آنتوں میں حرکات کو فوری طورپر بند کر دیاجائے تو سوزش بدستور رہے گی یا جراثیمی زہروہیں رہ جائے گا۔اس لیے علاج کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنتوں کو صاف کیاجائے۔پھر جراثیم مارے جائیں۔ شہد میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ یہ دونوں کام کر سکتا تھا۔'' (9)

شہد اور جد ید مشاہدات

٭ انگلستان میں سالفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لاری کرافٹ نے حساسیت اور موسم بہار میں حساسیت کی وجہ سے ہونے والے بخار سے متاثرہ 200 مریضوں پر تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ یہ عوارض کسی اور دوائی کو شامل کیے بغیر صر ف شہد سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر کرافٹ کے مطابق یہ شہد باغوں سے حاصل کیا گیا ہو اور اسے باربار یا زیادہ گرم نہ کیا گیا ہو۔گندم کے آٹے میں شہد ملا کر مرہم سی بنا کر پھوڑے پھنسیوں پر لگانا 'ان کو مندمل کر دیتاہے۔ شہد میں سرکہ اورنمک ملا کر چھائیوں پر لگانے سے داغ دور ہوجاتے ہیں۔ روغن گل میں ملا کر گند ے زخموں پر بطور مرہم لگانے سے ان کی عفونت رفع کرکے انہیں ٹھیک کر دیتا ہے۔ عرق گلاب میں شہد ملا کر بالوں پر لگانے سے جوئیں مر جاتی ہیں۔ بال ملائم اور چمک دار ہوجاتے ہیں۔

٭جرمنی میں حال ہی میں ایک دوائی Nordiske Proplis کے نام سے تیار ہورہی ہے۔ جو کیپسول ،دانے دار شربت اور مرہم کی صورت میں تیارکرکے برلن کی Sanhelios کمپنی نے تحقیقات کے بعد مارکیٹ میں پیش کی ہے ،علاوہ ازیں ڈنمارک کے پروفیسر لنڈ اوردنیا کے دیگر ملکوں میں محققین نے یہ پتہ چلایا ہے کہ شہد میں ایک جراثیم کش عنصر Propils کے نام سے موجود ہے۔ لیبارٹری تجربات کے مطابق یہ پیپ اور سوزش پیدا کرنے والے جراثیم کو ہلاک کرنے کی استعدادد وسری تمام ادویہ سے زیادہ رکھنے کے علاوہ جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ بھی کرتاہے۔
٭مختلف لیبارٹریوں میں مشاہدات کے بعد اسے ناک ،کان ،گلا،نظامِ انہضام،نظام تنفس اور اعصاب کی ہرقسم کی سوزشوں میں کسی بھی دوائی سے زیادہ مفید پایا گیا۔
٭یہ وہ منفرد دوائی ہے جو وائرس کو بھی ہلا ک کر سکتی ہے۔ انفلوئنزا اور زکام میں اس سے نہ صرف کہ مریض تندرست ہوگئے بلکہ اس نے جھلیوں کی جلن کو فوراً دور کر دیا۔

٭لندن کے مضافات میں کینٹ سے برطانوی اخبارات نے لکھاہے کہ جوڑوں کی بیماریوں کے سیکڑوں پرانے مریض پروپالس کے استعمال سے شفایاب ہوگئے۔
٭لاہور کے ایک دوافروش ادارہ ''شفا میڈیکوز '' نے ایک مرتبہ جرمنی سے شہد سے بنے ہوئے ٹیکے درآمد کیے۔ان ٹیکوں کے بارے میں دوا ساز ادارے کا دعوٰی تھا کہ یہ جسم سے کمزوری دور کرتے ہیں۔جسم سے حساسیت یعنی Allergy کو ختم کرتے ہیں۔ حساسیت سے پیدا ہونے والی جلد ی بیماریوں ،خا ص طور پر ایگزیما میں مفید ہیں ،جوڑوں کے درد میں معمولی تکلیف کے لیے ٹیکے گوشت یا ورید میں لگائے جائیں اور اگر جوڑ سوج گئے ہوں یا جوڑوں کی ہڈیاں گل رہی ہوں تو یہ ٹیکہ جوڑ کے اندر لگایا جائے۔ان ٹیکوں کا نام M-2-WOELUM تھا۔ انہیں جرمنی کے شہر کولون کی ویلم کمپنی نے تیار کیا اور دلچسپی کی بات یہ کہ انہوں نے اپنے طبی رسالہ میں بتایا کہ انہوں نے شہد کو اس طرح استعمال کرنے کا ر استہ قرآن مجید سے معلوم کیا۔

٭ امریکہ میں پروفیسر سٹوارٹ نے لیبارٹری میں تپ محرقہ اور پیپ پیدا کرنے والے جراثیم کی مختلف قسموں کو شہد میں ڈالا۔یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہواکہ جراثیم کی کوئی بھی قسم شہد میںزندہ نہ رہ سکی۔ 

شہد میں انسان کے لیے شفا ہے، اس سائنسی حقیقت کی تصدیق ان سائنس دانوں نے کر دی تھی جو 20-26ستمبر 1993ء میں چین میں منعقدہ عالمی کانفرنس برائے مگس بانی میں شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس میں شہد سے تیا ر کی جانے والی دواؤں پر بحث کی گئی تھی۔ امریکی سائنس دانوں نے بطور خا ص یہ کہا ''شہد ،رائل جیلی ،زردانہ اور شہد کی مکھی کی رال بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ''۔

رومانیہ کے ایک امراض چشم کے ڈاکٹر نے بتایا کہ اس نے ایسے مریضوں پر شہد کو آزمایا جو موتیا بند کے شکار تھے اور 2094مریضوں میں سے 2002مریض تندرست ہو گئے۔ پولینڈ کے اطبا نے بھی کانفرنس میں بتایا کہ شہد کی مکھی کی رال بہت سی بیماریوں کا علاج ہے جن میں Haemothoids ، جلد کے مسائل ،امراض نسواں اور بہت سی دوسری صحت کی خرابیا ں شامل ہیں۔

شہد کی کیمیائی ہیئت انسانی جسم کی ساخت میں جتنے بھی کیمیاوی مرکبات استعمال ہوتے ہیں یا انسان کو ان کی ضرورت رہتی ہے، ان میں سے ہر عنصر شہد میں موجود ہوتاہے۔ اشیائے خوردنی میں حیاتین کی موجودگی کے بارے میں اصول یہ ہے کہ بعض خوراکیں ایسی ہیں جن میں حل پذیر وٹامن ہوتے ہیں اور بعض ایسی ہیں جن میں چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن مثلاً A.D.E.Kپائے جاتے ہیں۔شہد وہ منفرد مرکب ہے جس میں ہر قسم کے وٹامن موجود ہیں۔

شہد میں موجود مشہور عناصر ،مٹھاس ،فرکٹوس ،فارمک ایسڈ ،فرازی تیل ،موم اور پولن گرین Pollengrains ہوتے ہیں۔ 50- 60فارن ہائیٹ پر شہد دانے دار بن جاتاہے۔ اس کے اجزا میں اہمیت مٹھاس کوہے۔ کیمیاوی طور پر مٹھاس کی سب سے مشکل قسم نشاستہ ہے، جب ہم روٹی کی صورت میں نشاستہ منہ میں ڈالتے ہیں تو چبانے کے دوران تھوک کا جوہر PTYALINنشاستہ کو گلو کوس میں تبدیل کر دیتا ہے،جس سے ہم لقمہ کو چباتے چباتے مٹھاس محسوس کرنے لگتے ہیں۔

قرآن مجید نے مکھیوں کے منہ میں متعدد قسم کے جوہروں کی نشاندہی کی ہے۔ اور علم کیمیا کی ترویج سے اس ارشاد ربانی کی صداقت کا عمل یوں معلوم ہوا ہے کہ یہ پھولوں سے حاصل ہونے والی چیزوں اور خاص طور پر پولن کے دانوں میں موجود نشاستہ کو فرکٹوس میں تبدیل کر دیتی ہیں۔اسی طرح مکھی کے راستہ میں چینی بھی آتی ہے۔جسے کیمیاوی طور پر SUCROSE کہتے ہیں۔مکھی کے منہ میں ایک ہاضم جوہر INVERTASE کے نام سے پایا جاتاہے۔ وہ چینی یا دوسری نشاستہ دار چیزوں کو آسان ساختوں کی مٹھاسوں یا INVERT SUGARS میں تبدیل کر دیتے ہیں۔(12)

شہد کا جوہر

( یَخْرُ جُ مِنْ بُطُوْ نِہَاشَرَابُ مُخْتَلِفُ اَلْوَانُہ فِیْہِ ِشفَآءُ لِلنَّاسِ)

''ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔'' (13)
قرآن مجید اس امر کی نشان دہی کرتاہے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ سے مختلف قسم کی رطوبتیں خارج ہوتی ہیں۔ جن کو علم طب میں ENZYMES کہتے ہیں۔یہ جوہر مختلف امراض کے علاج میں مفید ہیں۔اس آیت کا مفہوم تب معلوم ہوا ،جب جرمن کیمیا دانوں نے شہد سے''شاہی موم'' ''ROYAL JELLY''نام کا عنصر علیحدہ کرلیا۔ اس انکشاف نے قرآن مجید کی صداقت اور افادیت کو واضح کر دیا۔ اب اس آیت سے مرادصرف شہد نہیں بلکہ وہ علیحدہ جوہر ہیں جو مکھی کے پیٹ سے پیداہوتے ہیں۔شاہی موم ایک ایسی رطوبت ہے جو چھتے کی کارکن مکھیوں کے حلق سے خارج ہوتی ہے۔ اس قوت بخش مادے میں شکر، لحمیات ،چربی اور بہت سی حیاتین شامل ہوتی ہیں۔اس جوہر کو رائل جیلی کا نام اس لیے دیاگیا کہ چھتے میں بچے صرف ملکہ دیتی ہے۔ اس کے شہزادوں کی پرورش جس خوراک پر ہوتی ہے وہ شاہی خوراک ٹھہری اور اس مناسبت سے اس سیال کا نام ''رائل جیلی '' قرار پایا۔

دنیا میں جتنے بھی چرند اور پرند ہیں ان کے بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کا وزن جتنا بھی ہو بالغ ہونے کے بعد والے وزن سے تناسب میں ہوتا ہے۔ مثلاًانسان کا بچہ اگرپیدائش کے وقت آٹھ پونڈ کا ہواور بالغ ہونے پر اس کا وزن 160 پونڈ ہو تو مراد یہ ہوئی کہ بچے کا وزن بلوغت پر بیس گنا بڑھا۔عام حیوانات کے بچے بیس سے پچیس گنا بڑھتے ہیں،شہد کی مکھی کا بچہ بڑاہونے پر اپنے پیدائشی وزن سے 350 گنا بڑھتا ہے۔پوری حیوانی دنیا میں کسی بچے کے اتنا بڑھنے کی کوئی مثال نہیں۔یہ ایک منفرد واقعہ ہے ،چونکہ ان بچوں کی خوراک رائل جیلی ہوتی ہے اس لیے لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ رائل جیلی جسمانی نشوونما پر مفید اثرات رکھتی ہے اور کمزوری کو دور کرتی ہے۔ ان معلومات کے بعدڈاکٹروں نے کمزوری کے مریضوں پر اس جوہر کے وسیع مشاہدات کیے۔جرمنی میں یہ جوہر بوتلوں اور گولیوں کی صورت میں تیارہوا اور ہرجگہ سے مقبولیت کی سند پائی۔

موجودہ زمانے میں اس جوہر کو تیار کرنے کا سب سے بڑا مرکز عوامی جمہوریہ چین ہے ،چین میں دواسازی کی صنعت کے اشتراکی ادارہ ''پیکنگ کیمیکل اینڈ فارما سوٹیکل ورکس '' نے ''پیکنگ رائل جیلی ''کے نام سے خالص مشروب اور ٹیکے تیارکیے ہیں۔تیا ر کرنے والوں نے اس کے تین اہم فوائد بیان کیے ہیں:

1۔ جب وزن روز بروز کم ہور ہا ہو۔ جب بھوک اڑ جائے ،بیماری سے اٹھنے یا زچگی کے بعد کی کمزوری کے لیے۔
2۔ عام جسمانی کمزوری ،دماغی اورجسمانی تھکن اورکمزوری کے لیے ۔
3۔ پیچیدہ اور پرانی بیماریوں میں جیسے کہ جگر کی بیماریاں ،خون کی کمی ،وریدوں کی سوزش اور ان میں خون کا انجماد ،جوڑوں کی بیماریاں اور گنٹھیا،عضلات کی انحطاطی بیماریاں DEGENRATIVE DISEASES ، معدہ کا السر۔
قرآن مجید نے مکھی کے جسم سے خارج ہونے والے اس جوہر کو شفا کا مظہر قرار دیاہے اور دنیا کے ہر گوشہ سے اس کی تصدیق میسر آرہی ہے