Saturday, 29 June 2013

Urdu Poetry Collection 3


شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا

پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا

ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا

میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا

ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا

موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا

جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مارا

شکوۂ موت کیا کریں کہ جگر
آرزوئے حیات نے مارا






کسی سحر کا کسی شام کا نہیں رہتا 
جو تیرا ہوا کسی کا کام کا نہیں رہتا 
ٹھہر گیا ہے میرے دل پہ سانس لینے کو 
وگرنہ ماہ کسی بام کا نہیں رہتا
شب فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں 
یہاں پہ کوئی میرے نام کا. نہیں رہتا 
میں صبح شام اسی کے خیال میں ہوں نوید 
مجھے خیال کسی کام کا نہیں رہتا






یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں، مگر امید نہ ہارو

کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!
Nasir Kazmi (ناصر کاظمی)






کبھی یاد آو تو اس طرح 
کہ دل و نظر میں سما سکو 
کبھی حد سے حبس جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو 
کبھی کھل سکو شب وصل میں 
کبھی خون دل میں سنور سکو
سر رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو ...نہ گزر سکو






لئے تو چلتے ہیں حضرتِ دل تمہیں بھی اُس انجمن میں ،لیکن
ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا

نہیں ہے کچھ قتل ان کا آساں، یہ سخت جاں ہیں برے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا، یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا

ہلاک اندازِ وصل کرنا کہ پردہ رہ جائے کچھ ہمارا
غم ِجُدائی میں خاک کر کے کہیں عدو کی خوشی نہ کرنا

مری تو ہے بات زہر اُن کو، وہ اُن کی مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ اُن سے جو التجا سے کہنا ، غضب ہے اُن کو وہی نہ کرنا

  Dagh Dehelvi داغ دهلوي

No comments:

Post a Comment